*عربی میں اسے فالوذج کہا جاتا ہے* اور یہ ایک قسم کا حلوہ ہوتا تھا جسے پستے کے تیل سے بنایا جاتا تھا
ایک بار امام ابو یوسف ہارون الرشید کے پاس موجود تھے فالودہ پیش کیا گیا
ہارون رشید نے کہا ابو یوسف تناول فرمائیں کیونکہ *ہمارے لیئے بھی روز روز نہیں بنتا!*
امام ابو یوسف ہنس پڑے
ہارون رشید کہنے لگا آپ *کیوں ہنستے؟*
امام ابو یوسف نے فرمایا میری والدہ مجھے درزی کے پاس چھوڑ آتی اور میں وہاں سے نکل کر امام اعظم ابو حنیفہ کی مجلس میں سبق پڑھنے چلا جاتا تھا
ماں پھر پکڑ کر درزی کے پاس لاتی
اور کہتی ابو حنیفہ تو مالدار ہیں مگر تمہارے گھر کا خرچ تم پر چلتا ہے!
کئی بار ایسا ہوا تو امام اعظم نے میرا خرچہ باندھ دیا کہ تم پڑھو اور *میں تمہاری کفالت کروں گا*
اور میری والدہ کو فرمایا ایک دن یہ فالودہ کھائے گا
جبکہ *فالودہ تو روز بادشاہوں کو بھی نہیں ملتا!*
یہ سن کر ہارون الرشید تعجب کرنے لگا اور کہنے لگا
*ابو حنیفہ اپنی عقل کی آنکھ سے وہ دیکھتے تھے جسے وہ سر کی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے تھے*
(مناقب ابی حنیفہ للخوارزمی)
*امام ابو یوسف اسلام کے پہلے قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس بنے* اور اسی وجہ خلیفہ وقت کے ساتھ بیٹھنے لگے تھے
اور *اسی وجہ سے امام محمد ان سے ناراض تھے* حالانکہ امام محمد شاگرد ہیں
اپنے استاد سے ناراضی کی وجہ قضاء کا عہدہ قبول کرنا تھا
کیونکہ امام اعظم نے بھی قضاء کا عہدہ قبول نہیں کیا تھا
*اور اسلاف یہ عہدہ لینا ناپسند کرتے تھے*
امام محمد نے چھ کتابیں لکھیں جن کو ظاہر الروایہ کہا جاتا ہے
جب تک امام ابو یوسف سے صلح رہی ان کا نام ذکر کرتے تھے کہ مجھے ابو یوسف نے بیان کیا
اور جب قضاء کی وجہ سے ناراض ہو گئے تو نام کی جگہ یوں کہتے *مجھے ایک ثقہ یعنی (ہر لحاظ سے قابل اعتبار شخص) نے بیان کیا ہے!*
کیسا ادب تھا کہ ایک مسئلہ میں اختلاف ہوا پھر بھی ان کی ثقاہت و فقاہت کو نہ صرف تسلیم کرتے بلکہ اپنی کتابوں میں ان کے حوالے دیتے تھے!
*آج کل طلباء کو اس سے کافی و شافی و وافی سبق ملتا ہے*
قرآن کریم ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے
لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ-اِعْدِلُوْا
تمہیں کسی قوم کی عداوت اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو!
یعنی جو جس کا جتنا مستحق ہے اسے اتنا کہو *کسی کے بغض و عداوت میں اسے وہ بات نہ کرو جو اس میں موجود ہی نہیں ہے!
یہ تحریری علامہ سید مہتاب قبلہ کی ہے ۔۔۔